ہمیں بھی کام بہت ہے خزانے سے اُس کے
ذرا یہ لوگ تو اٹھیں سرہانے سے اُس کے
یہی نہ ہو کہ توجہ ہٹا لے وہ اپنی
زیادہ دیر نہ بچنا نشانے سے اُس کے
وہ مجھ سے تازہ محبت پہ راضی ہے، لیکن
اصول اب بھی وہی ہیں پرانے سے اُس کے
وہ تیر اتنی رعایت کبھی نہیں دیتا
یہ زخم لگتا نہیں ہے گھرانے سے اُس کے
وہ چڑھ رہا تھا جدائی کی سیڑھیاں آفاق
سرک رہا تھا مرا ہاتھ شانے سے اُس کے
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...